حدیثِ جبرائیل (اُمُّ الْسُنَّۃ)

حدیثِ جبرائیل بیک وقت پانچ صحابہ، حضرت عمربن الخطابؓ، ابو ہریرؓہ، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو عامرؓ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔یہ حدیث شریف ایک واقعہ پر مبنی ہے جس میں حضرت جبرائیل ؑ ایک انسان کی شکل میں بنفسِ نفیس،صحابہ کرام اور حضورِ انور ﷺ کی ایک مجلس میں تشریف لاتے ہیں اورحضور ﷺ کے سامنے دو زانو ہو کر اس طرح بیٹھ جاتے ہیں کہ حضرت جبرائیل اور حضرت محمد ﷺ کے گھٹُنے مبارک ایک دوسرے کو چھوُنےلگتے ہیں۔ اس طرح بیٹھنے کے بعد حضرت جبرائیل آپ ﷺ سے اسلام، ایمان، درجہ احسان، قیامت کے وقت اور اسکی نشانیوں کے بارے میںچند سوالات کرتے ہیں۔ یہی چندسوالات اور اُنکےوہ اہم جوابات جو حضور انور محمد ﷺ نے دیے وہ اُمّتِ محمدیؐ کے لئے ایک مشعلِ راہ بن گئے۔ حضرت محمد ﷺ اور حضرت جبرائیلؑ کا وہ مکالمہ مندرجہ ذیل ہے

اسلام کی تعریف

حضرت جبرائیل ؑکا پہلا سوال اسلام کے بارے میں تھا۔‘‘اَخْبِرنیِ عَنِ الْاِسْلام’’ یعنی مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ جسکے جواب میں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ‘‘اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور تونماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرےاگر تجھے اسکے سفر کی استطاعت ہو’’۔ یہ جواب سن کر حضرت جبرائیلؑ نے حضور ﷺ کی تائیدکی اور کہا کہ آپؐ نے بالکل درست فرمایا۔

ایمان کی تعریف

حضرت جبرائیل ؑ کادوسرا سوال ایمان کے بارے میں تھا۔ ‘‘اَخبْرِنیِ عَنِ الْایمان’’یعنی مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں۔ جسکا جواب دیتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا ‘‘ایمان یہ ہے کہ تو یقین رکھے اللہ پر، اسکے فرشتوں پر، اسکی کتابوں پر، اسکے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اوراچھی بری تقدیر پر (کہ جو خیر یا شر کسی پر وارد ہوتا ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے)’’۔ اس جواب کی بھی حضرت جبرائیلؑ نے تائید فرمائی۔

ایمان کیا ہے

آگے چلنے سے پہلے،میں یہاں قارئین کو ایمان کی تعریف (Definition) بتانا چاہوں گا۔لغوی طور پر،کسی شخص کی دی ہوئی کسی بھی خبرکو،اُس انسان کی سچائی پر مکمل یقین اوربھروسہ رکھتے ہوئے اُس خبرکو دل سے تسلیم کرلینے کا نام ایمان ہے۔تاہم شرعی طور پر ایمان کا مفہوم یہ ہے کہ ہم حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مُطہرہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے آپﷺ کی کہی ہوئی ہر بات اور ہر حکم کونہ صرف مانیں بلکہ اس پر من و عن یقین کر کے اُن پر عمل کریں۔اب یہاں آپ تھوڑا سا غور فرمائیں کہ سارا کا سارا قرآن بنیادی طور پر‘‘حدیث’’ہے،یعنی یہ وہ کلام ہے جسے آپﷺ نے ‘‘وحیٔ من ربی ’’ کہا اور جو آپکی زبانِ مبارک سے جاری ہوا۔اور باقی تمام باتیں جو آپﷺ نے کہیں اور وہ اعمال جو آپ ﷺ نے کیے، انہیں آپ کی امت نے ‘‘احادیثِ مبارکہ’’ کے طور پر محفوظ کر لیا۔

ایمان اور اعمالِ صالح کا تعلق

ایمان دراصل دلی اعتقاد، زبانی اقرار اوراسکے نتیجے میں واقع ہونے والے اعضاو جوارح کےاعمال کا نام ہے۔دل ایمان لاتا ہےاور اسکی تصدیق کرتا ہےجس کے نتیجے میں شہادت کے الفاظ، ذکرِ الہٰی اور تِلاوتِ قرآن زبان پر آتے ہیںاور ہمارے جسمانی اعضاء رکوع و سجود جیسے اعمالِ صالح کرتے ہوئے تقربِ الہٰی کی خاطر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔کیونکہ دل ہی علم اورتفکر و تدبر کا مرکز ہےاسلئے اگر غور سے دیکھا جائے تو ایمان کا سارا دارومدار دل کی کیفیات سے ہے؛ اگر ایمان دل میں راسخ ہو گاتوہمارے دل میںاللہ کی محبت، توکل،انابت، صبر، یقین، خشوع اور اُسکی ناراضگی کا خوف یعنی تقویٰ ہمیشہ موجود رہے گا۔ یہ تمام کیفیات صرف محسوس ہی کی جا سکتی ہیں مگر انکا اظہار ہمارے قول وفعل سے لازمی ہوتا ہے۔اسکےعلاوہ، جیسا کہ قارئین کے علم میںہوگا کہ آخرت میںکسی بھی نیکی کا اجر(اور وزن) اُسکے کرنے والے کے اخلاص کے مطابق دیا جائے گا جو ایک خالصتاً قلبی فعل ہے۔لہٰذہ ثابت یہ ہوتا ہے کہ ہمارے تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار یا Touchstone ہمارے ایمان کے ہونےیا نہ ہونے اوراسکی مضبوطی پر ہے۔ایمان کو تازہ رکھنے کیلئے ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا تعلق ذکرِ الٰہی، قرآن کے ساتھ جڑنااور اقامۃ الصلوٰۃ کے ذریعے مضبوط رکھنا ہو گا۔اللہ کی یاد اور ایمان کی زیادتی کے درمیان تعلق کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الا نفال کی آیت نمبر 2 میںکچھ اس طرح فرمایا ہے
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَاِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُهٗ زَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَ ۝ سورۃ الانفال

2

درحقیقت ایمان والے وہی ہیں کہ جب ذکر کیا جائے اللہ کا ،ڈر جائیں ان کے دل اور جب پڑھا جائے ان پر اس کا کلام تو زیادہ ہوجاتا ہے ان کا ایمان اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

درجۂ احسان کیا ہے؟

حضرت جبرائیل ؑکاتیسرا سوال احسان کے بارے میں تھا۔‘‘اخبرنیِ عَنِ الاحسان’’ یعنی مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ جسکے جواب میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘(احسان یہ ہے کہ) تم ایسی کیفیت میں اللہ کی عبادت کرو گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو۔ پس اگر تم اُسے نہیں دیکھ سکتے (یعنی ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اگریہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (کم ازکم یہ کیفیت تو پیدا کرو کہ) اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے’’۔ احسان کے لفظی معنی ‘‘کسی کے ساتھ حسن ِ سلوک کرنا“ یا کسی کو”حسین یا خوبصورت بنانا’’ ہے۔قرآنی اصطلاح میں درجہ احسان کا مطلب ‘‘احسانِ اسلام’’ ہے؛ یعنی اسلام میں خوبصورتی پیدا کرنا ۔ اس سلسلے میں سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ۔۔۔ ۝ سورۃ النساء

125

اور اس سے بہتر کس کا دین ہوگا،جس نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا (سرِ تسلیم خم کردیا) اور وہ ہوا احسان کرنے والا۔۔۔

اس آیت میں اسلام اور احسان کو جوڑ دیا گیا ہے۔سورۃ المائدہ میں ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتدریج بڑھتے ہوئے تینوں درجوں،یعنی اسلام، ایمان اور احسان کا ایکساتھ ذکر کیا ہے
لَـيۡسَ عَلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوا وَّاٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّاٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوا وَّاَحۡسَنُوۡا‌ ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۝ سورۃ المائدہ

93

جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان پر گناہ نہیں اس میں جو کچھ پہلے کھاچکے، جب وہ اللہ سے ڈرے اور ایمان لائے اور نیک اعمال کئے، پھر تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے، پھر تقویٰ اختیار کیا اور (احسان کی نیت کے ساتھ)نیکی کی اور اللہ دوست رکھتا ہے احسان کرنے والوں کو۔

یہاں میں عبادت کے سب سے اعلیٰ درجے، یعنی ‘‘درجہ احسان’’ کی مزید وضاحت کرنا چاہوں گا۔عبادت صرف نماز قائم کرنے ، روزہ رکھنے ، حج اور زکٰوۃ ادا کرنے کا نام نہیں ، بلکہ ہر وہ قول و فعل عبادت بن جاتا ہے جس میں اللہ کے حکم کی تعمیل اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کی اتّباع کی گئی ہو۔ یعنی دن اور رات کے ہر لمحےمیں اللہ کو اپنے قریب محسوس کرکےصرف اللہ ہی کی محبت میں اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا اور ہر نیک کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرنے اور ریا کاری سے بچنے کا نام ہی دن رات ‘‘درجہ احسان’’ کے مطابق زندگی گزارنا ہے ۔اِسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحدید میں اسطرح فرمایا ہے کہ
۔۔۔وَهُوَ مَعَكُمۡ اَيۡنَ مَا كُنۡتُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ۝ سورۃ الحدید

4

اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو اور جو تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے۔

احسان کے ساتھ عبادت کرنے کے بارے میں ہی حضرت محمد ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو مندرجہ ذیل خصوصی دعا سے سرفراز فرمایا تھا اور اس دعا کو ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی

‘‘اَللّٰھُمَّ اَعِنّی عَلیٰ ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبادَتِک’’

اے اللہ، اپنے ذکر اور شکر اور احسان کے ساتھ عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔

قیامت کی نشانیاں

حضرت جبرائیلؑ کاچوتھا اورپانچواںسوال قیامت کے وقوع(اَخْبِرْنیِ عَنِ اْلسّاعَۃ)یا اسکی نشانیوں(فاخْبِرنیِ عَن اَمَارَاتِہاْ)کے بارے میں تھا۔ پہلے سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘جس سے (قیامت کے بارے میں) پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا’’۔ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺ نے سورۃ لقمان کی آخری آیت تلاوت فرمائی اورارشاد فرمایا ‘‘یہ غیب کی اُن پانچ چیزوں میں سے ہے ، جنکا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں’’۔ اس پر حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کی‘‘تو آپ مجھے اسکی نشانیاں بتا دیجئے’’۔ جسکے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ ‘‘جب تم دیکھو کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے’’(یعنی جب بیٹیاں اپنی ماؤں کے ساتھ نوکرانیوں جیسا سلوک کرنے لگیں) اور ‘‘تم یہ دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن اوربکریاں چرانے والے محتاج لوگ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگیں’’۔ آج کل اسی صورتِ حال کا مشاہدہ عالمِ عرب (خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ) میں بخوبی کیا جا سکتاہے۔ یعنی ایک طرح سے دیکھا جائے تو فی الواقعہ قیامت کی صغیرہ نشانیاں ہمارے ارد گرد آج کل بھی موجود ہیں ۔ اس مکالمے کے بعد حضرت جبرائیلؑ رخصت ہوگئے۔ دراصل حضرت جبرائیلؑ ایک انجان شخص کی شکل میں حضُورمُحَمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جسے کوئی بھی صحابی نہیں پہچانتا تھا۔ ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے بعد جب حضرت جبرائیل ؑرخصت ہوئے تو حضور ﷺ نے حضرت عمرؓسے دریافت فرمایا

”اے عمر! تمہیں معلوم ہوا یہ سائل کون تھا؟“۔ جسکے جواب میں حضور ﷺ نے خود ہی ارشاد فرمایا: ‘‘یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے’’۔

یعنی اس واقعہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں(یعنی اپنی بہترین اُمّت کو ) حضرت جبرائیلؑ (اپنے بزرگ ترین فرشتے) اور حضرت محمد ﷺ (اپنی محبوب ترین ہستی) کی وساطت سے ،انتہائی اختصارلیکن انتہائی بلاغت کے ساتھ اپنے دین کے بارے میں ایک جامع علم عطا کیا۔ علماء نے اسلام اور ایمان کے درمیان فرق کو مزید ایک فقرے میںبیان کیا ہے کہ ”اسلام ‘اِقْرارِباِاللّسانْ’ اور ایمان ‘تَصْدیقِ باِلْقَلبْ’ ہے“۔ یعنی جس نے زبان سے کلمہ شہادت پڑھ لیا، وہ قانونی طور پر تو مسلمان ہوگیا مگرمومن وہ اسوقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک اُسکے دل میں ایمان راسخ نہ ہوجائے یعنی مضبوطی سے اپنی جڑ نہ پکڑ لے(جس کا بیان ایمان کے سلسلے میں اوپر کیا جا چُکا ہے)۔ اسی بات کو اشفاق احمد نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے

‘‘جو اللہ کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو اللہ کی مانتا ہے وہ مومن ہے’’۔قارئینِ کرام،ایمان کے بغیر تزکیۂ نفس ممکن نہیں اور ایمان کو مضبوط اور تازہ رکھنے کی مد میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے،اسے سمجھ کر پڑھنے، اسکی تعلیمات پر عمل کرنے اور اسکی تعلیمات کو پھیلانے سے زیادہ مفید کام اور کوئی نہیں۔